تمام اجنبی چہرے سجے ہیں چاروں طرف

تمام اجنبی چہرے سجے ہیں چاروں طرف 
مری بہشت میں کانٹے اگے ہیں چاروں طرف 
لہو میں ڈوبے ہوئے دائرے ہیں چاروں طرف 
میں کیسے جاؤں کہیں حادثے ہیں چاروں طرف 
کتاب درد کی پڑھ کر سنا رہی ہے حیات 
اور آنسوؤں کے فرشتے کھڑے ہیں چاروں طرف 
چلو یہ خوب ہوا آئنہ جو ٹوٹ گیا 
اب عکس میرے ہی بکھرے ہوئے ہیں چاروں طرف 
ترا خیال جب آیا دکھوں کے صحرا میں 
مجھے کچھ ایسا لگا گل کھلے ہیں چاروں طرف 
کبھی ندی کے بدن پر کبھی فضاؤں میں 
ہوا نے میرے قصیدے لکھے ہیں چاروں طرف 
نہ میری آنکھوں میں نیندیں نہ خواب کی پریاں 
فراق ازل سے یہاں رت جگے ہیں چاروں طرف

فراق جلال پوری

Comments