کبوتروں کو اڑاتا ہوں اور دیکھتا ہوں

کبوتروں کو اڑاتا ہوں ، اور دیکھتا ہوں
فضا کا حسن بڑھاتا ہوں ، اور دیکھتا ہوں

یہ آنکھ مفت میں کچھ بھی نہیں دکھاتی مجھے
میں اس کو خواب دکھاتا ہوں ، اور دیکھتا ہوں

سنائی دیتا ہے کس کس کو، کون سنتا ہے؟
گلی میں شور مچاتا ہوں اور دیکھتا ہوں

کبھی میں پوچھتا رہتا تھا، کون ہے در پر؟
اور اب میں دوڑ کے جاتا ہوں ، اور دیکھتا ہوں

دھمال ڈالنے آتا ہے روز ایک ملنگ
میں روز دیکھنے جاتا ہوں، اور دیکھتا ہوں

سنا ہے موت مداوا ہے زیست کے غم کا
چلو میں جان سے جاتا ہوں، اور دیکھتا ہوں

حیا سے کیسے بدلتی ہے رنگتِ رخسار ؟
میں اس کو شعر سناتا ہوں اور دیکھتا ہوں

کشش زمین میں زیادہ ہے آسمان میں کم
ہوا میں خاک اڑاتا ہوں اور دیکھتا ہوں

جو شخص پیار کا منکر ہے، سامنے آئے
میں اس سے آنکھ ملاتا ہوں اور دیکھتا ہوں
ممتاز گورمانی

Comments