زندگی کا زخم گہرا تھا مگر اتنا نہ تھا

زندگی کا زخم گہرا تھا مگر اتنا نہ تھا
تم سے پہلے بھی میں تنہا تھا مگر اتنا نہ تھا
اپنے اپنے داغ سب مجھ پر لگانے آ گئے
میرا دامن میلا میلا تھا مگر اتنا نہ تھا
میری خوشبو کو نہ راس آئی ہوا کی دوستی
میں گلی کوچوں میں رسوا تھا مگر اتنا نہ تھا
کیا خبر تھی چھین لی جائیں گی آنکھیں بھی مری
ہاں مجھے شوق_تماشا تھا مگر اتنا نہ تھا
ہجر میں  رونا، عبادت سے مظفر کم نہیں
تجربہ تو آنسوؤں کا تھا مگر اتنا نہ تھا
مظفر وارثی

Comments