بھلا کیوں نہ ہوں راتوں میں نیندیں بے قرار اس کی

بھلا کیوں نہ ھوں راتوں میں نیندیں بے قرار اس کی
کبھی لہرا چکی ھو جس پہ زلف مشکبار اس کی

امید وصل پر دل کو فریب صبر کیا دیجیئے
ادا وحشی صفت اس کی نظر بیگانہ وار اس کی

برا ھو اس تغافل کا کہ تنگ آکر یہ کہتا ھوں
مجھے کیوں ھو گئ الفت مرے پروردگار اس کی

یہاں کیا دیکھتے ھو ناصحو، گھر میں دھرا کیا ھے
مرے دل کے کسی پردے میں ڈھونڈو یادگار اس کی

جفائے ناز کی میں نے شکایت ،ھائے کیوں کی تھی
مجھے جینے نہیں دیتی نگاہ شرمسار اس کی

ھمیں عرض تمنا کی جسارت ھو تو کیونکر ھو
نگاہیں فتنہ ریز اس کی ادائیں حشر بار اس کی

اختر شیرانی

Comments