پھر اور کس نے لیا دل یہی تو ہے وسواس

پھر اور کس نے لیا دل یہی تو ہے وسواس
کوئی ہمارے تمہارے سوا نہ آس نہ پاس

تمہیں بتاؤ کہ جاؤں گا پھر میں کس کے پاس
تمہارے در پہ اگر ٹوٹ جائے گی میری آس

تمہارے سامنے ظاہر کوئی الم نہ کیا
جگر میں درد بھی اٹھا تو ہم ہوئے نہ اداس

کسی سے صورتِ دیدار بھی نہ پوچھ سکے
انہیں جو دیکھ کے آیا بجا رہے نہ حواس

اسیر چپ ہیں تو صیاد یہ سمجھتا ہے
قفس میں اہلِ چمن کی بدل گئی بو باس

زمانہ کم ہے کوئی دیکھنے کو حالِ جنوں
کہ تم بھی آ کے کھڑے ہو گئے ہمارے پاس

زمانہ دیکھ رہا ہے نہ جانے کیا سمجھے
میرے جنازے پہ کیوں تم کھڑے ہوئے ہو اداس

زوالِ حسن بدلتا ہے عشق کی نظریں
بجھی جو شمع پتنگے نہ آئے شمع کے پاس

میں کس امید پہ اے باغباں رکھوں تنکے
تری بہارِ چمن آئی ہے کبھی مجھے راس

اب اس مقام پہ ہوں میں ستم تو کیا شے ہے
ترے کرم کا بھی ہوتا نہیں مجھے احساس

میں کس امید پہ اب آرزوئے دید کروں
کہ مانتا نہیں تیرے مشاہدے کو قیاس

ادائے حق وفا کو لحد پہ دو آنسو
بجھانے آئے تھے شبنم سے تم زمیں کی پیاس

قمر زوال میں اپنے بھی چھوٹ جاتے ہیں
چھپا نہ تھا تو شعاعیں تھیں آفتاب کے پاس

قمر جلالوی

Comments