اک نظر ہو تو کیا سے کیا ہو جاؤں

اک نظر ہو تو کیا سے کیا ہو جاؤں
میں جو پتھر ہوں، آئینہ ہو جاؤں

لوگ کعبہ سے سوئے طیبہ جائیں
میں تو بس اُنؐ  کا راستہ ہو جاؤں

اُنؐ  کی گلیوں کا قرض ہوں میں تو
دیکھئے کب وہاں ادا ہو جاؤں

میں تو اُس شہر کی امانت ہوں
کب چلوں اور کب ہوا ہو جاؤں

اُنؐ  کی بزم ہو اور میں
رقص کرتے ہوئے فنا ہو جاؤں

میری آنکھوں میں اُنؐ  کے خواب رہیں
اور ہر خواب سے جدا ہو جاؤں

بس انہیںؐ  سوچتا رہوں اور پھر
ہر تصور سے ماورا ہو جاؤں

مجھ کو بھی اذنِ باریابی ہو
خاک سے میں بھی کیمیا ہو جاؤں

کتنی بوسیدگی ہے مجھ میں سلیمؔ
اُنؐ  سے مل آؤں تو نیا ہو جاؤں

سلیم کوثر

Comments