یہ کہنا تو نہیں کافی کہ بس پیارے لگے ہم کو

یہ کہنا تو نہیں کافی کہ بس پیارے لگے ہم کو
انہیں کیسے بتائیں ہم کہ وہ کیسے لگے ہم کو
مکیں تھے یا کسی کھوئی ہوئی جنت کی تصویریں
مکاں اس شہر کے بھولے ہوئے سپنے لگے ہم کو ہم
ہم ان کو سوچ میں گم دیکھ کر واپس پلٹ آئے
وہ اپنے دھیان میں بیٹھے ہوئے اچھے لگے ہم کو
بہت شفاف تھے جب تک کہ مصروف تمنا تھے
مگر اس کار دنیا میں بڑے دھبے لگے ہم کو
جہان تنہا ہوئے دل میں بھنور سے پڑنے لگتے ہیں
اگرچہ مدتیں گزریں کنارے سے لگے ہم کو
احمد مشتاق

Comments