تم شہر صنوبر تھے میں نجد کا صحرا تھا

تم شہرِ صنوبر تھے میں نجد کا صحرا  تھا
تم حسن میں اول  تھے میں عشق میں یکتا تھا

جب رات کی آنکھوں سے چھلکے تھے  مرے آنسو
وہ درد کا موسم تھا وہ کرب کا لمحہ تھا

اب یونہی سہی لیکن سوچو تو ذرا اک پل
جب مجھ سے تعلق تھا کیا خوب زمانہ تھا

ان آنکھوں کا افسانہ بس اتنا سمجھ لیجئے
سہما ہوا صحرا تھا امڈا ہوا دریا تھا

یہ جبر کا سودا کیوں یہ  نازشِ بے جا کیا
جو دل میں تمھارے ہے کہہ دیتے تو اچھا تھا

بہکا تو بہت بہکا سنبھلا تو ولی ٹھہرا
اس چاک گریباں کا ہر رنگ نرالا تھا

میں نے تو نبیل اس کی پذیرائی بہت کی
اس نے ہی خدا جانے کیوں فاصلہ رکھا تھا
عزیز نبیل

Comments