دل بھی بجھا ہو شام کی پرچھائیاں بھی ہوں

دل بھی بجھا ہو شام کی پرچھائیاں بھی ہوں
مر جائیے جو ایسے میں تنہائیاں بھی ہوں

آنکھوں کی سرخ لہر ہے موجِ سپردگی
یہ کیا ضرور ہے کہ اب انگڑائیاں بھی ہوں

!ہر حسنِ سادہ لوح نہ دل میں اتر سکا
کچھ تو مزاجِ یار میں گہرائیاں بھی ہوں

دنیا کے تذکرے تو طبیعت ہی لے بجھے
بات اس کی ہو تو پھر سحن آرائیاں بھی ہوں

پہلے پہل کا عشق ابھی یاد ہے فراز
دل خود یہ چاہتا تھا کہ رسوائیاں بھی ہوں

احمد فراز

Comments