تیرگی چاند کے زینے سے سحر تک پہنچی

تیرگی چاند کے زینے سے سحر تک پہنچی
زلف کندھے سے جو سرکی تو کمر تک پہنچی
میں نے پوچھا تھا کہ یہ ہاتھ میں پتھر کیوں ہے
بات جب آگے بڑھی تو مرے سر تک پہنچی
میں تو سویا تھا مگر بارہا تجھ سے ملنے
جسم سے آنکھ نکل کر ترے گھر تک پہنچی
تم تو سورج کے پجاری ہو تمہیں کیا معلوم
رات کس حال میں کٹ کٹ کے سحر تک پہنچی
ایک شب ایسی بھی گزری ہے خیالوں میں ترے
آہٹیں جذب کیے رات سحر تک پہنچی
راحت اندوری

Comments