اسے اپنے فردا کی فکر تھی وہ جو میرا واقف حال تھا

اُسے اپنے فردا کی فِکر تھی، وہ جو میرا واقفِ حال تھا
وہ جو اُس کی صبحِ عروج تھی، وہی میرا وقتِ زوال تھا

میرا درد کیسے وہ جانتا، میری بات کیسے وہ مانتا
وہ تو خُود فنا کے سفر پہ تھا، اُسے روکنا بھی محال تھا

کہاں جاؤ گے مُجھے چھوڑ کر، میں یہ پُوچھ پُوچھ کے تھک گیا
وہ جواب مُجھ کو نہ دے سکا، وہ تو خُود سراپا سوال تھا

وہ جو اُس کے سامنے آ گیا، وہی روشنی میں نہا گیا
عجب اُس کی ہیبتِ حُسن تھی، عجب اُس کا رنگِ جمال تھا

دم واپسِیں اُسے کیا ہوا، نہ وہ روشنی، نہ وہ تازگی
وہ ستارہ کیسے بِکھر گیا، وہ تو آپ اپنی مِثال آپ تھا

وہ مِلا تو صدیوں کے بعد بھی میرے لب پہ کوئی گِلہ نہ تھا
اُسے میری چُپ نے رُلا دیا، جِسے گُفتگُو میں کمال تھا

میرے ساتھ لگ کے وہ رو دیا مجھے فخریؔ اتنا وہ کہہ سکا
جِسے جانتا تھا میں زندگی، وہ تو صِرف وہم و خیال تھا

زاہد فخریؔ

Comments