لوگ کہتے ہیں کہ اس کھیل میں سر جاتے ہیں

لوگ کہتے ہیں کہ اس کھیل میں سر جاتے ہیں
عشق میں اتنا خسارہ ہے تو گھر جاتے ہیں
موت کو ہم نے کبھی کچھ نہیں سمجھا مگر آج
اپنے بچوں کی طرف دیکھ کے ڈر جاتے ہیں
زندگی ایسے بھی حالات بنا دیتی ہے
لوگ سانسوں کا کفن اوڑھ کے مر جاتے ہیں
پاؤں میں اب کوئی زنجیر نہیں ڈالتے ہم
دل جدھر ٹھیک سمجھتا ہے ادھر جاتے ہیں
کیا جنوں خیز مسافت تھی ترے کوچے کی
اور اب یوں ہے کہ خاموش گزر جاتے ہیں
یہ محبت کی علامت تو نہیں ہے کوئی
تیرا چہرہ نظر آتا ہے جدھر جاتے ہیں

شکیل جمالی

Comments