گو دور جام بزم میں تا ختم شب رہا

گو دَورِ جام ِبزم میں، تا ختمِ شب رہا !
لیکن، میں تشنہ لب کا وہی تشنہ لب رہا

پروانہ میری طرح مُصِیبت میں کب رہا
بس رات بھر جَلا تِری محِفل میں جب رہا

ساقی کی بزم میں یہ نظامِ ادب رہا !
جس نے اُٹھائی آنکھ، وہی تشنہ لب رہا

سرکار ،پُوچھتے ہیں خفا ہو کے حالِ دل
بندہ نواز میں تو بتانے سے اب رہا

بحرِ جہاں میں ساحلِ خاموش بن کے دیکھ
موجیں پڑیں گی پاؤں، جو تُو تشنہ لب رہا

وہ ،چودھویں کا چاند ، نہ آیا نظر قمرؔ
میں اِشتیاقِ دید میں، تا ختمِ شب رہا

اُستاد قمر ؔ جلالوی

Comments