کاشف حسین غائر منتخب اشعار ، شاعری

خدا کرے نہ کوئی ان میں نامہ بر نکلے
کہ جو پرند میں کر کے شکار لایا ہوں
مرے عزیز زمانہ رکا ہوا ہے جہاں
میں اس جگہ سے بھی خود کو گزار لایا ہوں
۔۔۔۔۔
معلوم کچھ نہیں کہ مجھے دیر کیوں ہوئی
میرے سوا تو کوئی نہیں تھا قطار میں
کاشف حسین غائر

۔۔۔۔۔
پہلے مجھ کو بھیڑ میں گم کر دیا گیا
پھر مجھے آواز دی جاتی رہی

۔۔۔۔
کوئی آوارہ گرد ہی ہو گا
جس نے یہ راستا بنایا ہے
۔۔۔۔
لوگ اس کے سائے میں بیٹھے تھے‘ اور
زندگی گرتی ہوئی دیوار تھی
۔۔۔۔
مجھ سے ناراض پرندو‘ تمہیں معلوم نہیں
میں نے یہ جال بنایا ہے شکاری کے لیے
۔۔۔۔

عجیب بات ہے کاشف حسین اِس دل میں
کہ دُکھ بھی رہتے ہیں اور چارہ گر بھی رہتا ہے
۔۔۔۔

بنتا جاتا ہے یہ گھر شہر خموشاں کی طرح
شور کرتا ہوں تو بیکار نہیں کرتا میں
۔۔۔۔۔

دل میں تیری محبت بڑھتی جاتی ہے
ویرانے کی قیمت بڑھتی جاتی ہے
۔۔۔۔
بس ایک دن اُسے زنجیر خود رہا کرے گی
یہ قیدی ایسے تو آزاد ہونے والا نہیں
۔۔۔
گزشتگاہ میں ہمارا شمار ہونے میں
اب اور وقت ہے کتنا غُبار ہونے میں

یہ قید خانہ بھی اک شب میں کتنا پھیل گیا
اب اور دیر لگے گی فرار ہونے میں
۔۔۔

Comments