مدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے

مدّعی لاکھ بُرا چاہے تو کیا ہوتا ہے
وہی ہوتا ہے ، جو منظورِ خدا ہوتا ہے

برق لکھنوی
۔۔۔
یہ شعر کس شاعر کا ہے ، عام طور پر اہل علم حضرات بھی اس سے بے خبر ہیں ۔ اترپردیش اردو اکادمی سے آغا محمد باقر کا مرتبہ ’’غزلیات برق‘‘ 1983 میں شائع ہوا ۔ اس کتاب کے صفحہ نمبر 82 پر مذکورہ شعر برق لکھنوی سے منسوب ہے ۔ خلیق الزماں نصرت کی تحقیق بھی یہ بتاتی ہے کہ یہ شعر برق لکھنوی کا ہے ، جس کا ذکر انہوں نے اپنی کتاب ’’برمحل اشعار‘‘ میں صفحہ 57 پر کیا ہے ۔ برق لکھنوی کا نام مرزا محمد رضا خاں تھا ۔ وہ برق تخلص کیا کرتے تھے ۔ ان کے والد کا نام کاظم علی خاں تھا ۔ برق ناسخ کے شاگردوں میں تھے ۔ ان کا ایک دیوان ان کی حیات میں 1853 میں شائع ہوا ۔ 1857 میں کلکتہ میں ان کا انتقال ہوا۔

Comments

  1. اے صنم وصل کی تدبیروں سے کیا ہوتا ہے
    وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے


    مرزارضا برق

    ReplyDelete
  2. مدّعی لاکھ بُرا چاہے تو کیا ہوتا ہے
    وہی ہوتا ہے ، جو منظورِ خدا ہوتا ہے
    To meaning in Urdu. Answer Reply Please

    ReplyDelete

Post a Comment