Skip to main content

Posts

Featured

آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا

راہِ دردِ عشق میں روتا ہے کیا​ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا​ ​ قافلے میں صبح کے اک شور ہے​ یعنی غافل ہم چلے سوتا ہے کیا​ ​ سبز ہوتی ہی نہیں یہ سر زمیں​ تخم خواہشِ دل میں تُو بوتا ہے کیا​ ​ یہ نشانِ عشق ہیں، جاتے نہیں​ داغ چھاتی کے عبث دھوتا ہے کیا​ ​ غیرتِ یوسف ہے یہ وقتِ عزیز​ میر اس کو رائگاں کھوتا ہے کیا​ ​ دیوان اول ۔ میر تقی میر​

Latest Posts

عشق نے غالبؔ نکما کر دیا

اس کو چھٹی نہ ملے جس کو سبق یاد رہے

پہنچے وہاں ہی خاک جہاں کا خمیر ہو

دوست غم خواری میں میری سعی فرماویں گے کیا

بھنگڑے پہ اور دھمال پہ بھی ٹیکس لگ گیا

گرمی جو آئی گھر کا ہوا دان کھل گیا

جس شخص کی اوپر کی کمائی نہیں ہوتی

تمہارے پھپھا وہ گنجے والے جو لے گئے ادھار کنگھی

اسی پرچے میں خبر ہے مری رسوائی کی

رمضان کی سوغات ہیں یہ یار پکوڑے