Skip to main content

Posts

Featured

حسین تجھ پہ کہیں کیا سلام ہم جیسے

حسینؑ تجھ پہ کہیں کیا سلام ہم جیسے کہ تُو عظیم ہے بے ننگ و نام ہم جیسے برنگِ ماہ ہے بالائے بام تجھ جیسا تو فرشِ راہ کئی زیرِ بام ہم جیسے وہ اپنی ذات کی پہچان کو ترستے ہیں جو خاص تیری طرح ہیں نہ عام ہم جیسے یہ بے گلیم جو ہر کربلا کی زینت ہیں یہ سب ندیم یہ سب تشنہ کام ہم جیسے بہت سے دوست سرِ دار تھے جو ہم پہنچے سبھی رفیق نہ تھے سُست گام ہم جیسے خطیبِ شہر کا مذہب ہے بیعتِ سلطاں تِرے لہو کو کریں گے سلام ہم جیسے تُو سر بریدہ ہوا شہرِ نا سپاساں میں زباں بریدہ ہوئے ہیں تمام ہم جیسے پہن کے خرقۂ خوں بھی کشیدہ سر ہیں فراز بغاوتوں کے علم تھے مدام ہم جیسے احمد فراز

Latest Posts

میں بعد مرنے کے نوحہ خوانی کا کیا کروں گا

میاں شعر کہنا جو آسان ہوتا

پسِ نقاب رخ لاجواب کیا ہوتا

وہ نہ جانے گیا کدھر تنہا

آپ کو دربار کی عادت ہے درباری ہیں

آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا

عشق نے غالبؔ نکما کر دیا

اس کو چھٹی نہ ملے جس کو سبق یاد رہے

پہنچے وہاں ہی خاک جہاں کا خمیر ہو

دوست غم خواری میں میری سعی فرماویں گے کیا