اپنی محبت کے افسانے کب تک راز بناؤ گے
اپنی محبّت کے افسانے کب تک راز بناؤ گے
رُسوائی سے ڈرنے والو بات تُمھِیں پھیلاؤ گے
اُس کا کیا ہے تُم نہ سہی تو چاہنے والے اور بہت
ترکِ محبّت کرنے والو تُم تنہا رہ جاؤ گے
ہِجر کے ماروں کی خوش فہمی جاگ رہے ہیں پہروں سے
جیسے یوں شب کٹ جائے گی جیسے تُم آ جاؤ گے
زخمِ تمنّا کا بھر جانا گویا جان سے جانا ہے
اُس کا بُھلانا سہل نہیں ہے خود کو بھی یاد آؤ گے
چھوڑو عہدِ وفا کی باتیں کیوں جُھوٹے اِقرار کریں
کل مَیں بھی شرمِندہ ہُوں گا کل تُم بھی پچھتاؤ گے
رہنے دو یہ پِند ونصیحت ہم بھی فرازؔ سے ہیں واقف
جِس نے خود سو زخم سہے ہوں اُس کو کیا سمجھاؤ گے
احمد فراز
Comments
Post a Comment