مہ صفا کی تجلیوں سے چمک اٹھا ریگ زار بطحا
مہِ صفا کی تجلیوں سے چمک اٹھا ریگ زارِ بطحا
تمام ُدور و دراز عالم ، تمام قرب و جوار بطحا
خدائے برتر نے جس کو چاہا ، زمانے بھر نے جسے سراہا
وہ ہے اطاعت گزار اسرا، وہ ہے صداقت شعار بطحا
وہ جوہرِ دو دمان ہاشم ، خدا کی نعمت کا ہے جو قاسم
رسائی جس کی ہے لا مکاں تک ، وہ بے بدل شہسوار بطحا
وہ ارض پر نور بس رہی ہے ، مری نگاہوں میں میرے دل میں
فدائے طیبہ نظر ہے میری تو فکر و فن ہے نثار بطحا
یہ آرزو ہے کہ زود تر ہو زیارتِ روضہ پیمبر
وہ دن پھر آئے خدا دکھائے مجھے بھی لیل و نہار بطحا
برس پڑے گر سحاب رحمت ، چھٹے نہ پھر کیوں غبار کلفت
کھلیں نہ کیوں ذہن و دل کے غنچے ، جو دیکھ لوں میں بہار بطحا
عزیز ہے جان و دل سے مجھ کو وطن کی عزت وطن کی حرمت
عزیز تر لیکن ان سے تائب ہے آبروئے دیار بطحا
حفیظ تائب
Comments
Post a Comment