ان کی زلفوں میں خم رہ گئے ہیں
کیجیے جو ستم رہ گئے ہیں
جان دینے کو ہم رہ گئے ہیں
بن کے تصویرِ غم رہ گئے ہیں
کھوئےکھوئےسےہم رہ گئےہیں
دو قدم چل کے راہِ وفا میں
تھک گئے تم کہ ہم رہ گئے ہیں
بانٹ لیں سب نے آپس میںخوشیاں
میرے حصے میں غم رہ گئے ہیں
اب نہ اٹھنا سرہانے سے میرے
اب تو گنتی کے دم رہ گئے ہیں
قافلہ چل کے منزل پہ پہنچا
ٹھہروٹھہرو! کہ ہم رہ گئے ہیں
دیکھ کر ان کےمنگتوں کی غیرت
دنگ اہلِ کرم رہ گئے ہیں
ان کی ستاریاں کچھ نہ پوچھو
عاصیوں کے بھرم رہ گئے ہیں
اے صبا ! ایک زحمت ذرا پھر
اُن کی زلفوں میں خم رہ گئے ہیں
کائناتِ جفا و وفا میں
ایک تم ایک ہم رہ گئے ہیں
آج ساقی پلا شیخ کو بھی
ایک یہ محترم رہ گئے ہیں
یہ گلی کس کی ہے اللہ اللہ
اٹھتے اٹھتے قدم رہ گئے ہیں
وہ تو آ کر گئے بھی کبھی کے
دل پہ نقش قدم رہ گئے ہیں
دل نصیر ان کا تھا ،لے گئے وہ
ہم خدا کی قسم رہ گئے ہیں
دورِ ماضی کی تصویرِ آخر
اے نصیر ! ایک ہم رہ گئے ہیں
سید نصیر الدین نصیر
Comments
Post a Comment