شہرِ افسوس کے شکستہ کھنڈر
شہرِ افسوس کے شکستہ کھنڈر
جلوہ گاہِ اُمید کے منظر
ہے کشادہ بہت فضا دل کی
ہیں کئی دشت،دشت کے اندر
خالی رھتا ہے دل کا اِک گوشہ
گھر سے باہر رہوں کہ میں گھر پر
دل بگولہ سا بن کے رقص کرے
جب بھی وحشت سوار ہو سر پر
یہی حالات ہیں تو ہم کو بھی
سیکھنا ہوں گے نفرتوں کے ھنر
زنگ خوردہ ھیں اس کی زنجیریں
در مقفل رھے ہمیں کیا ڈر
ہیں تہی دست خود مکیں اس کے
دیر سے تم کھڑے ہو جس در پر
"شبنم شکیل"
Comments
Post a Comment