کوئی کیسا ہی ثابت ہو طبیعت آ ہی جاتی ہے
کوئی کیسا ہی ثابت ہو طبیعت آ ہی جاتی ہے 
خدا جانے یہ کیا آفت ہے آفت آ ہی جاتی ہے 
وہ کیسے ہی چلیں تھم تھم قیامت آ ہی جاتی ہے 
بچے کوئی کسی ڈھب سے پہ شامت آ ہی جاتی ہے 
ستم کر کے ستم گر کی نظر نیچی ہی رہتی ہے 
برائی پھر برائی ہے ندامت آ ہی جاتی ہے 
زلیخا بے خرد آوارہ لیلیٰ بد مزہ شیریں 
سبھی مجبور ہیں دل سے محبت آ ہی جاتی ہے 
چراغ و شمع بزم یار کر کر غیر کو پھونکا 
دل افسردہ میں آخر حرارت آ ہی جاتی ہے 
ہوا نظروں ہی نظروں میں وہ محشر برق صد خرمن 
محبت کی نگاہوں سے شرارت آ ہی جاتی ہے 
پسینہ آ گیا ان کو کیا وعدہ جو آنے کا 
بری ہے ناز برداری نزاکت آ ہی جاتی ہے 
ہر اک سے اب وہ کہتے ہیں کہ لو ہم پر یہ مرتے ہیں 
جییں گے اس طرح کب تک کہ غیرت آ ہی جاتی ہے 
نہیں کچھ دل کا پھرنا عہد دشمن سے ترا پھرنا 
مگر کچھ سوچ کر آخر مروت آ ہی جاتی ہے 
نہ ہوتی گر نوید مرگ کیوں کر ہجر میں جیتے 
محبت میں بھی آسائش پہ نیت آ ہی جاتی ہے 
وصال غیر کے قصے کو سن کر کیا تڑپتا ہوں 
یہ ارماں کوئی جا سکتا ہے حسرت آ ہی جاتی ہے 
اگر صد سال کیجے شکر الفت کیجئے لیکن 
یہ وہ شیوہ ہے بد ظن پھر شکایت آ ہی جاتی ہے 
قلقؔ خط غیر کا کیوں کر نہ آتا کیوں نہ تم پڑھتے 
قضا لکھی ہوئی حضرت سلامت آ ہی جاتی ہے
غلام مولی قلق
Comments
Post a Comment