اک پگلی مرا نام جو لے شرمائے بھی گھبرائے بھی
اِک پگلی مرا نام جو لے ، شرمائے بھی ، گھبرائے بھی
گلیوں گلیوں مجھ سے ملنے آئے بھی ، گھبرائے بھی
رات گئے گھر جانے والی گُم سُم لڑکی راہوں میں
اپنی اُلجھی زلفوں کو ُسلجھائے بھی ، گھبرائے بھی
کون بچھڑ کر پھر لَوٹے گا کیوں آوارہ پھرتے ہو؟
راتوں کو اِک چاند مجھے سمجھائے بھی ، گھبرائے بھی
آنے والی رُت کا کتنا خوف ہے اُس کی آنکھوں میں
جانے والا دُور سے ہاتھ ہلائے بھی ، گھبرائے بھی
کیا جانے وہ کون ہے محسن جس کی خاطر راتوں کو
تیز ہوا پانی پر نقش بنائے بھی ، گھبرائے بھی
محسن نقوی
Comments
Post a Comment