عشق نعمت ہے کہ آزار نہيں جانتا ہوں
عشق نعمت ہے کہ آزار ، نہيں جانتا ہوں
میں کسی چیز کو بےکار نہيں جانتا ہوں
اِتنا معلوم ہے اُس پار کوئی ہے میرا
اور وہ کون ہے سرکار ! نہيں جانتا ہوں
کب یہاں جشن کا سامان کیا جائے ' اور
کب چلے آئیں عزادار ' نہيں جانتا ہوں
بیچنے والے مجھے بیچ کے خوش ہیں ایسے
جیسے میں قیمتِ بازار نہيں جانتا ہوں
تُو فُلاں ، اِبن ِ فلاں اِبنِ فلاں ہے ، ہو گا
میں ترا نام و نسب یار ، نہيں جانتا ہوں
جانے کس وقت ملے کس کو رہائی ، عامی
کون ہو جائے گرفتار نہيں جانتا ہوں
آج کے آج میسر ہوں تو پڑھ لے ، عامی
کل ہو کیا سُرخیِ اخبار ، نہيں جانتا ہوں
عمران عامی
Comments
Post a Comment