رائیگانی

رائیگانی
میں کمرے میں پچھلے اکتیس دنوں سے
فقط اس حقیقت کا نقصان گننے کی کوشش میں الجھا ہوا ہوں
کہ تو جا چکی ہے
تجھے رائیگانی کا رتی برابر اندازہ نہیں ہے
تجھے یاد ہے وہ زمانہ
جو کیمپس کی پگڈنڈیوں پہ ٹہلتے ہوئے کٹ گیا تھا؟
تجھے یاد ہے جب قدم چل رہے تھے ؟
کہ اک پیر تیرا تھا اور ایک میرا
قدم وہ جو دھرتی پہ آواز دیتے کہ جیسے ہو راگا
کوئی مطربوں کا
قدم جیسے سا پا، گا ما پا گا سا رے
وہ طبلے کی ترکٹھ پہ
تک دھن
دھنک دھن
تنک دھن دھنادھن
بہم چل رہے تھے
قدم جو مسلسل اگر چل رہے تھے
تو کتنے گوّئیوں کے گھر چل رہے تھے
مگر جس گھڑی تو نے اس راہ کو میرے تنہا قدم کے حوالے کیا
ان سروں کی کہانی وہیں رک گئی
کتنی فنکاریاں، کتنی باریکیاں
کتنے '' کلیاں، بلاول '' گوّئیوں کے ہونٹوں پہ آنے سے پہلے فنا ہوگئے
کتنے نصرت فتح، کتنے مہدی حسن منتظر رہ گئے کہ ہمارے قدم پھر سے اٹھنے لگیں
تجھ کو معلوم ہے
جس گھڑی میری آواز سن کے
تو اک زاویے پہ پلٹ کر مڑی تھی
وہاں سے
ریلیٹیویٹی کا جنازہ اٹھا تھا
کہ اس زاویے کی کشش میں ہی یونان کے فلسفی
سب زمانوں کی ترتیب برباد کر کے
تجھے دیکھنے آگئے تھے
کہ تیرے جھکاؤ کی تمثیل پہ
اپنی ترچھی لکیروں کو خم دے سکیں
اپنی اکڑی ہوئی گردنوں کو لیے
اپنے وقتوں میں پلٹیں
جیومیٹری کو جنم دے سکیں
اب بھی کچھ فلسفی، اپنے پھیکے زمانوں سے بھاگے ہوئے
میرے رستوں پہ آنکھیں بچھائے ہوئے
اپنی دانست میں یوں کھڑے ہیں
کہ جیسے وہ دانش کا منبع
یہیں پہ کہیں ہے
مگر مڑ کے تکنے کو تُو ہی نہیں ہے۔
تو کیسے فلورنس کی تنگ گلیوں سے کوئی
ڈیونچی اٹھے
کیسے ہسپانیہ میں پکاسو بنے
ان کی آنکھوں کو تو جو میسر نہیں ہے
یہ سب تیرے میرے اکٹھے نہ ہونے کی قیمت ادا کر رہے ہیں
کہ تیرے نہ ہونے سے ہر اک زماں میں
ہر اک علم و فن میں ہر اک داستاں میں
کوئی ایک چہرہ بھی تازہ نہیں ہے
تجھے رائیگانی کا رتی برابر اندازہ نہیں ہے۔۔۔!
صہیب مغیرہ صدیقی

Comments