اسے اٹھا لو
اسے اٹھا لو
یہ منّی، پپّو کو پیٹتا ہے اسے اٹھا لو
یہ امنِ خانہ کا مسئلہ ہے اسے اٹھا لو
یہ بچّوں سے لیز چھینتا ہے اسے اٹھا لو
یہ چارپائی پہ کُودتا ہے اسے اٹھا لو
یہ گھر کی دیوار آرٹ کی گیلری بنائے
یہ "پانتا" ہے یہ "پیکتا" ہے اسے اٹھا لو
یہ کام چوری سے کام لینا ہی جانتا ہے
نہ "کامتا" ہے نہ "جابتا" ہے اسے اٹھا لو
یہ بعد شادی کے آج تک نہ گیا ہے سسرال
نہ "سالتا" ہے نہ "ساستا" ہے اسے اٹھا لو
تلاشنا نوجوان بیوائیں مشغلہ ہے
یہ عقدِ ثانی کا سوچتا ہے اسے اٹھا لو
یہ روز کہتا ہے ٹینڈے ہی شام کو پکالو
یہ "دال کُش" ہے "بے گوشتا" ہے اسے اٹھا لو
بہار ہو کہ خزاں اسے کچھ پتہ نہیں ہے
یہ پورا پورا "بے موسما" ہے اسے اٹھا لو
کہاں دے پاپا کا پیار اپنے دو چلڈرن کو
نہ "پاپتا" ہے نہ "باپتا" ہے اسے اٹھا لو
کہا ہے بیوی نے میرے سالے سے غصّہ ہوکر
"یہ اپنی مرضی سے سوچتا ہے اسے اٹھا لو"
عابد محمود عابد
Comments
Post a Comment