آگ کے درمیان سے نکلا
آگ کے درمیان سے نکلا
میں بھی کِس اِمتحان سے نکلا
پھر ہَوا سے سُلگ اُٹھے پتےّ
پھِر دُھواں گُلسِتان سے نکلا
جب بھی نِکلا ستارۂ اُمّید
کُہر کے درمیان سے نکلا
چاندنی جھانکتی ہے گلیوں میں
کوئی سایہ مکان سے نکلا
ایک شُعلہ ، پِھر اِک دُھویں کی لکِیر
اور کیا خاکدان سے نکلا ؟
چاند جس آسمان میں ڈُوبا
کب اُسی آسمان سے نکلا
یہ گُہر جِس کو آفتاب کہیں !
کِس اندھیرے کی کان سے نکلا
شُکر ہے اُس نے بے وفائی کی
میں کڑے اِمتحان سے نکلا
لوگ دشمن ہوئے اُسی کے، شکؔیب !
کام جِس مہربان سے نکلا
شکیبؔ جلالی
Comments
Post a Comment