اس کی باتیں تو پھول ہوں جیسے
اس کی باتیں تو پھول ہوں جیسے
باقی باتیں ببول ہوں جیسے
چھوٹی چھوٹی سی اس کی وہ آنکھیں
دو چنبیلی کے پھول ہوں جیسے
اس کا ہنس کر نظر جھکا لینا
ساری شرطیں قبول ہوں جیسے
کتنی دلکش ہے اس کی خاموشی
ساری باتیں فضول ہوں جیسے
معراج فیض آبادی
Comments
Post a Comment