کیا سمجھ پائیں گے مجھ پیڑ کا آزار میاں

کیا سمجھ پائیں گے مجھ پیڑ کا آزار میاں
مشت بھر خاک کے گملوں میں پڑے یار میاں
اپنے ہونےکی سزا کاٹتے پھرتے ہیں سبھی
کوئی اندر کوئی باہر سے گرفتار میاں
ڈھل گئی عمر میری شعبدہ بازی والی
اب میرے پاؤں پکڑ لیتے ہیں انگار میاں
خاک اس بیل کی صورت کو ترس جاتی ہے
راس آجائے جسے موسمِ دیوار میاں
زلزلے رزق بڑھا دیتے ہیں مزدوروں کا
کام فطرت کوئی کرتی نہیں بیکار میاں
لگ گیا شہر کا ہر شخص شجرکاری میں
میں ہوں صحرا سے اجازت کا طلبگار میاں
یہ جو سنتا ہوں توجہ سے میں باتیں اس کی
ہاتھ لگ جاتے ہیں مصرِعے مرے دو چارمیاں
جس کی تصویر بنا لیتی ہیں آنکھیں میری
گھیر لیتی ہے وہ نکتہ میری پرکار میاں
چٹخنی دل نےچڑھا رکھی ہے ہونٹوں پہ کبیر
بند اندر سے ہے دروازہ ِ گفتار میاں
کبیر اطہر

Comments