Posts

Showing posts from 2024

آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا

عشق نے غالبؔ نکما کر دیا

اس کو چھٹی نہ ملے جس کو سبق یاد رہے

پہنچے وہاں ہی خاک جہاں کا خمیر ہو

دوست غم خواری میں میری سعی فرماویں گے کیا

بھنگڑے پہ اور دھمال پہ بھی ٹیکس لگ گیا

گرمی جو آئی گھر کا ہوا دان کھل گیا

جس شخص کی اوپر کی کمائی نہیں ہوتی

تمہارے پھپھا وہ گنجے والے جو لے گئے ادھار کنگھی

اسی پرچے میں خبر ہے مری رسوائی کی

رمضان کی سوغات ہیں یہ یار پکوڑے

پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی

فن کار

فیس بک اسٹیٹس

پر منانا باپ کو لانا ہے جوئے شِیر کا

جب سے بیگم نے مجھے مرغا بنا رکھا ہے

کون سا ہمدم ہے تیرے عاشقِ بے دم کے پاس

وہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی

حضور ایسا کوئی انتظام ہو جائے

وہ کمال حسن حضور ہے کہ گمان نقص جہاں نہیں

اسے اٹھا لو

اگتے ہوئے نہ روند لگے مت خراب کر

بھر کے دامن میں ترا رنج تری یاد سمیت

منسوب چراغوں سے طرفدار ہوا کے

آپ کو حاکم بنایا تھا خدا کس نے کیا

قربت سے ناشناس رہے کچھ نہیں بنا

پھول دیکھو یا کہیں پہ خار دیکھو چپ رہو

پھر جی سے یزیدوں کا یہ ڈر کیوں نہیں جاتا

نہ جانے ظرف تھا کم یا انا زیادہ تھی

گہر سمجھا تھا لیکن سنگ نکلا

میں خود زمیں ہوں مگر ظرف آسمان کا ہے

چاہتا ہوں کہ سنو تم تو کہاں سنتے ہو

عزیز فیصل مزاحیہ اشعار

شعر پر یوں تالیاں اچھی نہیں

کھا کے سینڈل گرے رو پڑے ہنس دیئے کپڑے جھاڑے مڑ ے بال سیدھے کئے

کل چودھویں کی رات تھی آباد تھاکمرہ ترا

یہ تاج سارے،یہ تخت سارے