ہم بھی ایسے ہی تھے جب آئے تھے ویرانے میں​

کہیں امید سی ہے دل کے نہاں خانے میں​
ابھی کچھ وقت لگے گا اسے سمجھانے میں​
موسمِ گل ہو کہ پت چھڑ ہو بلا سے اپنی​
ہم کہ شامل ہیں نہ کھلنے میں نہ مرجھانے میں​
ہم سے مخفی نہیں کچھ راہگزرِ شوق کا حال​
ہم نے اک عمر گزاری ہے ہوا خانے میں​
ہے یوں ہی گھومتے رہنے کا مزا ہی کچھ اور​
ایسی لذّت نہ پہنچنے میں نہ رہ جانے میں​
نئے دیوانوں کو دیکھیں تو خوشی ہوتی ہے​
ہم بھی ایسے ہی تھے جب آئے تھے ویرانے میں​
موسموں کا کوئی محرم ہو تو اس سے پوچھو​
کتنے پت جھڑ ابھی باقی ہیں بہار آنے میں​
احمد مشتاقؔ​

Comments