اگرچہ زندگی پیاری بہت ہے

اگرچہ زندگی پیاری بہت ہے
مگر جینے میں دشواری بہت ہے
سفر کے راستے مسدود، لیکن
سفر کرنے کی تیّاری بہت ہے
ہوں اک سوئے ہوئے گھر کا محافظ
مری قسمت میں بیداری بہت ہے
اترتے جا رہے ہیں روح میں غم
یہ نشہ ان دنوں طاری بہت ہے

اسی کی ذات سے شکوے ہیں سارے
اسی بے درد سے یاری بہت ہے
اسی کے واسطے ہم بک گئے ہیں
وہ شے جس کی خریداری بہت ہے
ابھی ممکن ہے اس کے دل میں رہنا
مگر اس میں دلازاری بہت ہے
کریں کیا تجھ سے ملنے کی تمنّا
یہ پتّھر اب دنوں بھاری بہت ہے
کیا تھا آرزو کا قتل ہم نے
اور اب اس کی عزاداری بہت ہے
کہاں سے اتنے لشکر آ گئے ہیں
یہاں تو ایک تاراری بہت ہے
غنیمت ہے سروں پر نیلگوں چھت
ہوا کی چار دیواری بہت ہے
تمھیں کب تک کریں گے یاد آخر
جنہیں خود سے بھی بیزاری بہت ہے
ضروری ہے کسی کا ہو کے رہنا
مگر اس کام میں خواری بہت ہے
مبارک ہو تمھیں مصروف رہنا
ہمیں یہ کارِ بے کاری بہت ہے
نہیں اپنی گرہ میں مال۔۔۔ شہزاد
بظاہر گرم بازاری بہت ہے۔۔۔
شہزاد احمد

Comments