کلاسیکی شعراء کے منتخب اشعار

ہماری قبر پہ ٹُھوکر لگا کے فرمایا 
اسی مقام سے بوئے وفا نکلتی ہے 

مرزا فدا علی مــنــنؔ

آہ تعظیم کو اٹھتی ہے مرے سینہ سے
دل پہ جب اس کی نگاہوں کے خدنگ آتے ہیں

میر حسن

بے پردہ سوئے وادی مجنوں گزر نہ کر
ہر ذرہ کے نقاب میں دل بیقرار ہے
مرزا غالب

گو ضبط کرتے ہوویں جراحت جگر کے زخم
روتا نہیں ہے کھول کے دل رازدارعشق

میر تقی میرؔ

ساتھ میرے تیرے جو دکھ تھا سو پیارے عیش تھا
جب سیں تو بچھڑا ہے تب سیں عیش سب غم ہو گیا

آبرو شاہ مبارک

شربتِ وصل پلا جا، لبِ شیریں کی قسم 
جان جاتا ہے مرا سورۂ یٰسیں کی قسم

شاہ ســـراج اورنگ آبادی

وہ لوگ کون سے ہیں اے خدائے کون و مکاں
سخن سے کان کو جو آشنا نہیں رکھتے

میر انیس

عبث ہے امید وفا ان سے روحی
زمانے میں کوئی ہوا ہے کس کا 

محمد ابرہیم خاں روحی

چپ لگ گئی ہے اک بتِ ظالم کے عشق میں
ضبطِ فغاں ہے نام ہمارے گواہ کا

میر ضامن جلال

دم بخود ہوں تری الفت میں کچھ ایسا ظالم
ہائے آتی ہے مرے لب پہ نہ ہُو آتا ہے 

میر عابد علی خاں عابد

اے عشق لے نہ جا اسے ہرگز نہ لے گا وہ
افسردہ دل پری زدہ، دل زار زار دل

میر سوز

ناوک انداز جدھر دیدہ جاناں ہوں گے

نیم بسمل کئی ہوں گے کئی بے جاں ہوں گے

مومن خان مومن

احباب چارہ سازیِ وحشت نہ کر سکے
زنداں میں بھی خیال، بیاباں نورد تھا 

مرزا اسد اللّہ خان غالب

درد دل پہلے تو وہ سنتے نہ تھے
اب یہ کہتے ہیں ذرا آواز سے

جلیلؔ مانک پوری


زیادہ اس سے نہ اٹھوائیے گا اپنے ستم
دیا ہے بہت نازوں میں ہم نے پال کے دل

میر ضامن علی جلالؔ


وہ کہتے ہیں کیا زور اٹھاؤ گے تم اے داغؔ
تم سے تو مرا ناز اٹھایا نہیں جاتآ

داغ دہلوی

جلد تم اٹھو دوڑ کے آؤ ہم کو تھامو ہم کو سنبھالو
گرتے ہیں مثل اشک زمیں پر اٹھتے ہیں شکل درد جگر ہم

احمد حسین مائل

دیوانوں سے کہدو کہ چلی بادِ بہاری
کیا اب کی برس چاک گریباں نہ کریں گے
رندؔ لکھنوی

آزار کھینچنے کے مزے عاشقوں سے پوچھ

کیا جانے وہ کہ جس کا کہیں دل لگا نہ ہو

میر تقی میر

اور کچھ تحفہ نہ تھا جو لاتے ہم تیرے نیاز
ایک دو آنسو تھے آنکھوں میں سو بھر لائیں ہیں ہم

میر حسن

دل میں خاک اڑتی ہے کہنے کو بڑے ہیں زاہد
مکر کا ورد ہے پڑھتے ہیں ریا کی تسبیح

مادھو رام جوہر


حسن و جمال سے ہے زمانے میں روشنی
شب ماہتاب کی ہے، تو روز آفتاب کا

خواجہ حیدر علی آتش

تغافل دوراے نیناں ،، بنائے بتیاں
کہ تاب ہجراں ندارم اے جاں نہ لیہو کاہے لگائے چھتیاں

امیر خسرو

عیاں ہے ہر طرف عالمِ میں حسنِ بے حجاب اس کا 
بغیر از دیدۂ حیراں نہیں جگ میں نقاب اُس کا 
ولی دکنی

‎جلوۂ یار اِدھر بھی کوئی پھیرا تیرا 
‎حسرتیں آٹھ پہر تکتی ہیں رستہ تیرا

مولانا حسن رضا خان بریلوی رحمۃالله

کچھ اشارہ جو کیا ہم نے ، ملاقات کے وقت 

ٹال کر کہنے لگے دن ہے ابھی ، رات کے وقت 

شیخ قلندر بخش جرات

بل کھا گئی کمر بھی نزاکت سے اے مــنــنؔ
دو پھول توڑنے کو جو اس نے بڑھائے ہاتھ
مرزا فدا علی مــنــنؔ

Comments