بے سروساماں ہوں میں بھی یار بھی بے زر مرے

بے سروساماں ہوں میں بھی یار بھی بے زر مرے


ورنہ تجھ سے جانےکتنے ہونے تھے نوکر مرے
بارہا میں نے کیا ہے جلتے سورج کا طواف
ایک دن تو جالگے تھے آسماں سے پر مرے
آنے جانے سے دلوں کا راستہ معلوم تھا
اور نشانے پر لگے ہیں تیر بھی اکثر مرے
میرا بازو کٹ گیا تھا میری ہی تلوار سے
اک پرائی جنگ میں مارے گئے لشکر مرے
یہ تو میں اپنا ہی منکر ہوں وگرنہ تجھ سا شخص
کس بلندی پر گیا ہے پاؤں کو چھو کر مرے
دیکھنے والوں نے سمجھا اسکو سگریٹ کا دھواں
ایک لاوا پک رہا ہے آج کل اندر مرے
میرے دل میں اسکی چاہت دن بہ دن بڑھتی رہی
جیسے الٹے پڑ رہے ہوں مجھ پہ ہی منتر مرے
اس کو دیکھا تو ہی عارضؔ دیکھنا آیا مجھے
اس کےچھونے سے گہر ہونے لگے کنکر مرے
آفتاب عارض

Comments