اپنی مستی، کہ تِرے قُرب کی سرشاری میں

اپنی مستی، کہ تِرے قُرب کی سرشاری میں


اب میں کچھ اور بھی آسان ہوں دُشواری میں

کتنی زرخیز ہے نفرت کے لیے دل کی زمیں
وقت لگتا ہی نہیں فصل کی تیاری میں

اِک تعلق کو بکھرنے سے بچانے کے لیے
میرے دن رات گُزرتے ہیں اداکاری میں

وہ کسی اور دوا سے مرا کرتا ہے علاج
مُبتلا ہوں میں کسی اور ہی بیماری میں

اے زمانے میں ترے اشک بھی رو لوں گا، مگر
ابھی مصرُوف ہوں خُود اپنی عزاداری میں

اُس کے کمرے سے اُٹھا لایا ہوں یادیں اپنی
خُود پڑا رہ گیا لیکن کسی الماری میں

اپنی تعمیر اُٹھاتے تو کوئی بات بھی تھی
تم نے اِک عمر گنوا دی مری مسماری میں

ہم اگر اور نہ کچھ دیر ہوا دیں، تو یہ آگ
سانس گُھٹنے سے ہی مر جائے گی چنگاری میں

تم بھی دُنیا کے نکالے ہوئے لگتے ہو ظہیرؔ
میں بھی رہتا ہوں یہیں، دل کی عملداری میں

ثناء اللہ ظہیرؔ

Comments