طور والے تری تنویر لیے بیٹھے ہیں 

طور والے تری تنویر لیے بیٹھے ہیں 
ہم تجھی کو بت بے پیر لیے بیٹھے ہیں
جگر و دل کی نہ پوچھو جگر و دل میرے 
نگہ ناز کے دو تیر لیے بیٹھے ہیں
ان کے گیسو دل عشاق پھنسانے کے لئے 
جا بجا حلقۂ زنجیر لیے بیٹھے ہیں
اے تری شان کہ قطروں میں ہے دریا جاری 
ذرے خورشید کی تنویر لیے بیٹھے ہیں
پھر وہ کیا چیز ہے جو دل میں اتر جاتی ہے 
تیغ پاس ان کے نہ وہ تیر لیے بیٹھے ہیں
مئے عشرت سے بھرے جاتے ہیں اغیار کے جام 
ہم تہی کاسۂ تقدیر لیے بیٹھے ہیں
کشور و عشق میں محتاج کہاں ہیں بیدمؔ 
قیس و فرہاد کی جاگیر لیے بیٹھے ہیں
(بیدم شاہ وارثی)

Comments