ہے اداسی کا مرتکب کوئی 

ہے اداسی کا مرتکب کوئی 
 مجھ میں رہتا ہے مضطرب کوئی
چاند بھی روشنی نہیں دیتا
 جب سے روٹھا ہے بے سبب کوئی
اپنے موقف کی بات کرتا ہے 
 مجھ سے ملتا ہے آ کے جب کوئی
میں تو سنتی نہیں ہوں اپنی بھی 
 یہاں ہوتا ہے اپنا کب کوئی
کیجیے غم سے آپ ہی پردہ
کہہ رہا ہے یہ محتجب کوئی
 دلشاد نسیم 

Comments