اپنی اپنی خواہشوں کے عکس میں دیکھا گیا

اپنی اپنی خواہشوں کے عکس میں دیکھا گیا
ایک لڑکی کو یہاں کِس کِس طرح سوچا گیا
اک سُخن آثار سا چہرہ تو ہے دل میں مگر
وہ نہیں جو شہر کی دیوار پر لِکھّا گیا
خواب کے قیدی رہے تو کچھ نظر آتا نہ تھا
جب چلے تو جنگلوں میں راستہ بنتا گیا
تہمتیں تو خیر قسمت تھیں مگر اِس ہجر میں
پہلے آنکھیں بُجھ گئیں تھیں اور اَب چہرہ گیا
ہم وہ محرمِ سفر ہیں دشتِ خواہش میں جنھیں
اِک حصارِ بے در و دیوار میں رکھّا گیا
بَرملا سچ کی جہاں تلقین کی جاتی رہی
پھر وہاں جو لوگ سچّے تھے انھیں روکا گیا
ہم وہ بےمنزل مسافر ہیں جنھیں ہر حال میں
ہم سفر رکھّا گیا اور بے نوا رکھّا گیا
( ق )
پھر امیرِ شہر تھا اور مخبروں کی بھیڑ تھی
پھر امیرِ شہر خلقت سے جُدا ہوتا گیا
کھا گیا شوقِ غرورِ بزم آرائی اُسے
صاحبِ فہم و فراست تھا مگر تنہا گیا
نوشی گیلانی

Comments