ارادے باندھتا ہوں سوچتا ہوں توڑ دیتا ہوں 

نگاہ آرزو آموز کا چرچا نہ ہو جائے 
شرارت سادگی ہی میں کہیں رسوا نہ ہو جائے 
انہیں احساس تمکیں ہو کہیں ایسا نہ ہو جائے 
جو ہونا ہو ابھی اے جرأت رندانہ ہو جائے 
بظاہر سادگی سے مسکرا کر دیکھنے والو 
کوئی کمبخت ناواقف اگر دیوانہ ہو جائے 
بہت ہی خوب شے ہے اختیاری شان خودداری 
اگر معشوق بھی کچھ اور بے پروا نہ ہو جائے 

ارادے باندھتا ہوں سوچتا ہوں توڑ دیتا ہوں 
کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ویسا نہ ہو جائے 
الٰہی دل نوازی پھر کریں وہ مے فروش آنکھیں 
الٰہی اتحاد شیشہ و پیمانہ ہو جائے 
مری الفت تعجب ہو گئی توبہ معاذ اللہ 
کہ منہ سے بھی نہ نکلے بات اور افسانہ ہو جائے 
یہ تنہائی کا عالم چاند تاروں کی یہ خاموشی 
حفیظؔ اب لطف ہے اک نعرۂ مستانہ ہو جائے 
حفیظ جالندھری

Comments