کبھی تیغ تیز سپرد کی کبھی تحفۂ گل تر دیا

کبھی تیغِ تیز سپرد کی، کبھی تحفۂ گلِ تر دیا
کسی شاہ زادی کے عشق نے مرا دل ستاروں سے بھر دیا

یہ جو روشنی ہے کلام میں کہ برس رہی ہے تمام میں
مجھے صبر نے یہ ثمر دیا، مجھے ضبط نے یہ ہنر دیا

زمیں چھوڑ کر نہیں جاؤں گا، نیا شہر ایک بساؤں گا
میرے بخت نے مرے عہد نے مجھے اختیار اگر دیا

کسی زخمِ تازہ کی چاہ میںکہیں بھول بیٹھوں نہ راہ میں
کسی نوجواں کی نگاہ نے جو پیام وقتِ سفر دیا

مرے ساتھ بود و نبود میںجو دھڑک رہاہے وجود میں
اسی دل نے ایک جہان کا مجھے روشناس تو کر دیا

ثروت حسین

Comments