یہ اور بات کہ رنگ بہار کم ہوگا

یہ اور بات کہ رنگِ بہار کم ہوگا
نئی رُتوں میں درختوں  کا بار کم ہوگا
تعلقات میں آئی ہے بس یہ تبدیلی
ملیں گے اب بھی مگر انتظار  کم ہوگا
میں سوچتا رہا کل رات بیٹھ کر تنہا
کہ اِس ہجوم میں میرا  شمار کم ہوگا
پلٹ تو آئے گا شاید کبھی یہی موسم
ترے بغیر مگر خوش گوار کم  ہوگا
بہت طویل ہے آنسؔ یہ زندگی کا سفر
بس ایک شخص پہ دار و مدار کم ہوگا
آنسؔ معین

Comments