بدل کے بھیس ملے لوگ بار بار مجھے

بدل کے بھیس ملے لوگ بار بار مجھے
کہ تجربہ نہ ہوا کوئی خوشگوار مجھے

ہر اک دکان پہ صحرا کی خاک بک رہی ہے
سو اور ہی کوئی کرنا ہے کاروبار مجھے

مری کہانی کا گمنام ہے کوئی کردار
وہ ایک شخص جو ملتا ہے بار بار مجھے

ہر ایک شے مری بکھری ہوئی ہے میری طرح
سو اچھا لگتا ہے کمرے میں انتشار مجھے

میں دربدر جسے آنکھوں میں لے کے پھرتا ہوں
وہ چاند چہرہ نظر آئے ایک بار مجھے

میں ایک عام سا،گمنام شخص تھا قیصر
بنا دیا ہے محبت نے اشتہار مجھے

  زبیر قیصر

Comments