اک ذرا سن تو سہی مہکتے گیسو والی

اک ذرا سُن تو سہی مہکتے گیسو والی
راہ میں کون دکاں پڑتی ہے خوشبو والی

پھر یہ کیوں ہے کہ مجھے دیکھ کے رم خوردہ ہے
تیری آنکھوں میں تو وحشت نہیں آہو والی

دیکھنے میں تو ہیں سادہ سے خدوخال مگر
لوگ کہتے ہیں کوئی بات ہے جادو والی

گفتگو ایسی کہ بس دل میں اُترتی جائے
نہ تو پُرپیچ نہ تہہ دار نہ پہلو والی

ایک منظر کی طرح دل پہ منقش ہے ابھی
ایک ملاقات سرِ شام لبِ جُو والی

درد ایسا ہے کہ بجھتا ہے چمک جاتا ہے
دل میں اک آگ سی ہے آگ بھی جگنو والی

جیسے اک خواب سرائے سے گزر ہو تیرا
کوئی پازیب چھنک جاتی ہے گھنگھرو والی

زعم چاہت کا تھا دونوں کو مگر آخرِ کار
آ گئی بیچ میں دیوار من و تو والی

ایس لگتا ہے کہ اب کے جو غزل میں نے کہی
آخری چیخ ہے دل توڑتے آہو والی

اک نگاہِ غلط انداز ہی اے جانِ فرازؔ
شوق مانگے ہے خلش تِیر ترازو والی

احمد-فراز

Comments