رات کی آنکھیں نیند سے بوجھل خواب کہاں تک جاگیں گے

رات کی آنکھیں نیند سے بوجھل، خواب کہاں تک جاگیں گے
سوئے شہر، ٹھکانے، جنگل، خواب کہاں تک جاگیں گے
برسوں کی تنہائی میں تو یادیں بھی تھک جاتی ہیں
کھیل،کتابیں، گلیاں، پیپل، خواب کہاں تک جاگیں گے
ایک اک کر کے جگنو، تارے، دیپ، پتنگے، راکھ ہوئے
رات کی رانی، خوشبو، صندل خواب کہاں تک جاگیں گے
اک دن ہم دونوں بھی گہری نیند کے غش میں اتریں گے
اور ہمارے ساتھ یہ نرپھل خواب کہاں تک جاگیں گے
دھوپ نے سارے رنگ مٹا کر پیلی سیج سجائی ہے
اس ماحول میں سندر، کومل خواب کہاں تک جاگیں گے
عمروں کے جگراتے ناصر کب آنسو بن جائیں گے
کب پگھلے گا دکھ کا پیتل، خواب کہاں تک جاگیں گے

ناصر کاظمی

Comments