پھر اسی راہ گزر پر شاید

پھر اسی راہ گزر پر شاید
ہم کبھی مل سکیں گے مگر شاید

جن کے ہم منتظر رہے ان کو
مل گئے اور ہم سفر شاید

جان پہچان سے بھی کیا ہوگا
پھر بھی اے دوست غور کر شاید

اجنبیت کی دھند چھٹ جائے
چمک اٹھے تری نظر شاید

زندگی بھر لہو رلائے گی
یاد یاراں بے خبر شاید

جو بھی بچھڑے وہ کب ملے ہیں فرازؔ
پھر بھی تو انتظار کر شاید

احمد فراز

Comments