شہر کے یہیں کہیں ہونے کا رنگ ہے

شہر کے یہیں کہیں ہونے کا رنگ ہے
اِس خاک میں کہیں کہیں سونے کا رنگ ہے
پائیں چمن ہے خُود رَو درختوں کا جُھنڈ سا
محرابِ در پہ، اُس کے نہ ہونے کا رنگ ہے
طُوفانِ ابر و بادِ بَلا ساحِلوں پہ ہے
دریا کی خامشی میں، ڈبونے کا رنگ ہے
اِس عہد سے وفا کا صِلہ مرگِ رائیگاں
اِس کی فضا میں ہر گھڑی، کھونے کا رنگ ہے
سُرخی ہے جو گلاب سی آنکھوں میں،اے مُنیرؔ !
خارِ بہار دِل میں چُبھونے کا رنگ ہے
مُنِیرؔ نیازی

Comments