مجھے اک رس بھری کا دھیان تھا، ہے اور رہے گا

مُجھے اک رس بھری کا دھیان تھا، ہے اور رہے گا
یہی مصرعہ مِرا اعلان تھا، ہے اور رہے گا
سپاھی ڈھونڈتے پھرتے ہیں جس کو شہر بھر میں
وھی باغی مِرا مہمان تھا، ہے اور رہے گا
تُجھے مِل تو نہیں پایا مگر مَیں جانتا ہُوں
کہ تُجھ میں عشق کا امکان تھا، ہے اور رہے گا
کسی کو اپنے دل کی مُستقل ٹھنڈک نہ جانو
بدن تو ایک آتش دان تھا، ہے اور رہے گا
مِرے شعروں پہ طعن و طنز کرنے والے لوگو !
یہ لہجہ ہی مری پہچان تھا، ہے اور رہے گا
قسم ھے آگ سے اُٹھتی ہوئی چنگاریوں کی
محبت میں بہت نُقصان تھا، ہے اور رہے گا
کبھی گل پُھول تو تھے ہی نہیں کمرے میں لیکن
تہی دامن سا اک گُلدان تھا، ہے اور رہے گا
تُم اپنے ذھن سے اُس کو کُھرچ کر خوش نہ ہونا
تمہارے دل میں تو رحمان تھا ہے اور رہے گا
رحمان فارس

Comments