عنایتوں کا تسلسل بھی بے حساب نہیں

عنایتوں کا تسلسل بھی بے حساب نہیں
یہ عمر بھر کا اثاثہ ہیں چند خواب نہیں
رگوں کو کاٹتا ہے کرب اب سمجھ آیا
کہ ترکِ عشق سے بڑھ کر کوئی عذاب نہیں
رتوں کو کھا لیا زردابیوں کی وحشت نے
کسی کتاب میں اب کے کوئی گلاب نہیں
تمہیں یہ لگ رہا ہے وقت لوٹ آئے گا
تمہاری خام خیالی کا بھی جواب نہیں
مجھے قبول ہے یہ بھی کہ منکر- شب ہوں
سو میرے بام پہ اب کوئی ماہتاب نہیں
خوشی میں کیا گلے لگ کر مناوں گی کومل
اگر وہ شخص مجھے دکھ میں دستیاب نہیں
کومل جوئیہ

Comments