ہر ذرۂ امید سے خوشبو نکل آئے

ہر ذرۂ امید سے خوشبو نکل آئے
تنہائی کے صحرا میں اگر تو نکل آئے
کیسا لگے اس بار اگر موسم گل میں
تتلی کا بدن اوڑھ کے جگنو نکل آئے
پھر دن تری یادوں کی منڈیروں پہ گزارا
پھر شام ہوئی آنکھ میں آنسو نکل آئے
بے چین کیے رہتا ہے دھڑکا یہی جی کو
تجھ میں نہ زمانے کی کوئی خو نکل آئے
پھر دل نے کیا ترک تعلق کا ارادہ
پھر تجھ سے ملاقات کے پہلو نکل آئے

نوشی گیلانی

Comments