کون کہتا ہے کہ تجھ سی کوئی صْورت نہ ملی

کون کہتا ہے کہ تجھ سی کوئی صْورت نہ ملی
ہاں مگر مجھ کو تری یاد سے مْہلت نہ ملی
درد چمکا کہ مری روح میں سورج اْترا
عمر بھر راہِ وفا میں کہیں ظلمت نہ ملی
زندگی آج بھی بھر پور ہے ان کے دم سے
جن کو فرہاد کے انجام سے عبرت نہ ملی
مجھ کو اس شخص کے افلاس پہ رحم آتا ہے
جس کو ہر چیز ملی، صرف محبّت نہ ملی
وہ بھی کیا عِلم کہ جس سے تجھے اے بحرِ علوم !
دل کی وسعت نہ ملی، غم کی دیانت نہ ملی
مار ڈالے گا اْسے جْرم کا احساس ندیم
قتل کر کے جسے ، مقتول پہ سبقت نہ ملی

احمد ندیم قاسمی

Comments