اور دیوار چمن سے میں کہاں تک جاؤں گا

اور دیوارِ چمن سے میں کہاں تک جاؤں گا
پھول تھامے ہاتھ میں اس کے مکاں تک جاؤں گا

جل اٹھے گی تیرگی میں ایک ست رنگی دھنک
شاعری کا ہاتھ تھامے میں جہاں تک جاؤں گا

منتظر ہو گی مری، وہ آنکھ فواّرے کے پاس
دشت سے لوٹوں گا صحنِ گلستاں تک جاؤں گا

آئینے میں عکس اپنا دیکھنے کے واسطے
ایک دن اس چشمۂ آبِ رواں تک جاؤں گا

ظلمتوں کے دشت میں ایک مشعلِ خود سوز ہوں
روشنی پھیلاؤں گا ثروت جہاں تک جاؤں گا

ثروت حسین

Comments